قارئین! آپ کیلئے قیمتی موتی چن کر لاتا ہوں اور چھپاتا نہیں‘ آپ بھی سخی بنیں اور ضرور لکھیں (ایڈیٹر حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی)
یقین جانیے یہ ایک خاندانی رازوں میں سے ایک راز ہے اس کا ایک چھوٹا سا واقعہ سناؤں۔ ایک درزی تھے جو شہر کے بعض مالدار لوگوں کے لباس سیتے تھے جو شاہی انداز کے تھے اور ان کا نذرانہ اور شکرانہ بہت مہنگا تھا۔
ایک بات بڑوں نے بتائی اور اس کو بار بار سنا کہ جس دور میں چائے کو متعارف کروایا گیا‘ اس دور میں یہ بات مسلسل سننے کو ملی اور بے شمار تحریروں میں بھی یہ بات آئی ہے کہ جب چائے کے عالمی تاجروں نے چائے کی تجارت کی تو اس کو جگہ جگہ پکا کر فری پلایا گیا حتیٰ کہ اسٹیشنوں پر ٹرینوں میں بھی اس کو فری دیا گیا۔ لوگ اس کو نہایت ناپسند کرتے تھے لیکن اشتہار بھی چلتے رہے فری بھی چلتا رہا۔یہ سلسلہ آج سے تقریباً اسی(80) سال قبل شروع ہوا اب دنیا میں کھربوں ڈالر کی چائے مجبوری اور ضرورت بن گئی ہے۔ سالہا سال کی تحقیق کے بعد پوری دنیا چائے کے نقصانات اور اس کی وجہ سے دل، گردے ‘ معدہ اور جگر کے مسائل کو مسلسل بیان کررہی ہے۔ سائنسدان اس تحقیق میں لگے ہوئے ہیں کہ لوگ کسی طرح چائے چھوڑ دیں‘ کوئی بھی چیز ہو اس کاکبھی کبھارکا استعمال نقصان نہیں دیتا‘ روزانہ معمول بنانا اور بعض لوگوں کو خود میں نے دیکھا کہ دن میںسولہ سے بیس کپ چائے پینا ان کا معمول ہے۔ وہ کہتے ہیں چائے لب سوز ہو (یعنی لبوں کو جلائے) لب دوز ہو (یعنی گھونٹ بھر کے ہو) اور لبریز ہو (یعنی برتن اور پیالے بھر ےہوئے ہوں) بس یہی لب سوز، لب دوز اور لبریز نے نسلوں کی نسلوں کو چائے پر لگا دیا ہے۔ قارئین! آج کیوں نہ آپ کو ایسا جڑی بوٹیوں کا قہوہ دیں جوایسا ہو جو آپ کی صحت‘ تندرستی‘ نشوونما‘ فٹنس‘ جوانی‘ دل ودماغ‘ اعصاب‘ پٹھے ان تمام کیلئے ایک روشن اور لاجواب چمکدار گھونٹ ہو جس کا ہر گھونٹ آپ کے جسم کو نئی زندگی دے۔ کہیں ایسا گھونٹ نہ ہو جو گردے کے ڈائیلاسز کے مریض بڑھائے‘ کہیں ایسا گھونٹ نہ ہو جو دل کے ہسپتالوں کو تعمیر کرنے پر مجبور کردے اور دل کے ہسپتال تھوڑے پڑتےجائیں‘ کہیں ایسا گھونٹ نہ ہو کہ معدے کے امراض کاعلاج سب سے شاندار کاروبار بن جائے‘ کہیں ایسا گھونٹ نہ ہو کہ ازدواجی زندگی اتنی ختم ہوجائے کہ عورت کسی غیرکی طرف جھانکنا یا سوچنا شروع کردے‘ کہیں ایسا گھونٹ نہ ہو جو عورت کو لیکوریا کے نام پر ہڈیاں کھوکھلی‘ خون کی کمی اور جسم میں کمزوری کا تمغہ دے۔ کہیں ایسا گھونٹ نہ ہو جو طبیعت میں چڑچڑاپن‘ ڈیپریشن‘ ٹینشن ‘ایگزائٹی‘ اسٹریس پیدا کرے‘ کہیں ایسا گھونٹ نہ ہو جو معاشرے کو تشدد اور عدم برداشت کی راہوں پر لگادے۔ کہیں ایسا گھونٹ نہ ہو جو جوڑوں کے درد‘ کمر کے درد اور جوڑوں میں موجود گریس جس سے جوڑ چٹختے نہیں‘ درد نہیں کرتے ان کو خشک نہ کردے۔ سچ پوچھئے! یہ جڑی بوٹیوں کے وہ گھونٹ ہیں جو ان سب بیماریوں سے آپ کو بچائیں گے‘ ان سب تکلیفوں سے آپ کو نجات دیں گے اور یہ ساری چیزیں ایسی ہوں گی جن سے آپ کو فٹنس بھی ملے اور نقصانات سے بھی بچیں گے۔ آئیے! ہم آپ کوایک ایسے قدرتی جڑی بوٹیوں کے بے ضرر اور نقصان سے پاک قہوہ کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور اس قہوہ کا تعارف کراتے ہیں۔ یقین جانیے یہ ایک خاندانی رازوں میں سے ایک راز ہے اس کا ایک چھوٹا سا واقعہ سناؤں۔ ایک درزی تھے جو شہر کے بعض مالدار لوگوں کے لباس سیتے تھے جو شاہی انداز کے تھے اور ان کا نذرانہ اور معاوضہ بہت مہنگا تھا‘ عام آدمی کی پہنچ سے دورتھا۔ ان کے پاس جو شخص بھی ماپ لینے یا لباس لینے آتا تھا سردی ہو یا گرمی وہ یہ قہوہ پیش کرتے تھے جو بھی پی کر جاتا اور اپنی طبیعت میں سکون اور اپنے جسمانی مسائل اور مشکلات سے ایک کپ سے ہی بہت زیادہ نجات پاتا ۔ان سے کئی لوگ پوچھتے تھے بس وہ کہتے تھے آپ کو آم کھانے سے غرض ہے آم کے درخت یعنی پیڑ گننے سے غرض نہیں۔ وہ کسی کو اس کا فارمولہ یعنی نسخہ نہیں بتاتے تھے ان کے مرنے کے بعد ایک خاتون کو ان کی بیوی سے یہ نسخہ ملا کیونکہ ان کی بیوی ہی یہ قہوہ بناتی تھی۔ یہ نسخہ مجھے اسی طرح گھومتے گھماتے ایک شخص سےملا۔ جو اس کے بہت دلدادہ تھے اور وہ اکثر اس قہوہ کی تعریف کرتے تھے‘ ان کےبقول یہ قہوہ پینے والا اگر کسی بیماری میں مبتلا ہوا ہے چاہے وہ موسم گرما کی بیماری ہو یا سرما کی‘ وہ بارش کی بیماری ہو یا وباء کی تو پھر اس کا قصور لگتا ہے کہ وہ اس قہوہ سے دور رہا ہے ورنہ تو یہ قہوہ زندگی ہے‘ جان ہے‘ صحت ہے‘ تندرستی ہے اور کمال ہے! آئیے! اب آپ کو اس قہوہ کے اجزا اور اس کی ترکیب کا تعارف کراتے ہیں:۔قہوہ بنانے کی ترکیب: سبز چائے‘ سبز الائچی‘ سونف‘ پودینہ خشک یا سبز‘ تھوڑی تھوڑی مقدار میں اگر قہوہ زیادہ بنانا ہو تو زیادہ مقدار میں لیکراس کو ہلکی آنچ پر ابالیں بہتر یہی ہے کہ چینی نہ ڈالیں ورنہ جیسے آپ کی طبیعت ہو اور اس کو چسکی چسکی پئیں۔ ٹھنڈا کرکے بھی پی سکتے ہیں اور گرما گرم بھی نوش جان کریں۔قہوہ کیا ہے؟ آپ اس کے اجزا پر غور کریں الائچی مغل بادشاہوں کی صحت کا راز رہا ہے۔ ان کا پلاؤ ہو یا زردہ سالن ہو یا بریانی، قورمہ ہو یا میٹھی ڈش ہر مغل بادشاہ کی ہر غذا میں چھوٹی سبز الائچی ہمیشہ رہی ہے۔ دراصل الائچی کو برصغیر کے بادشاہوں نے متعارف کروایا اور آج پوری دنیا میں یہ جہاں دواؤں میں استعمال ہوتی ہے وہاں غذاؤں کا جزو جان ہے۔ اس میں عورت کے پوشیدہ اعضا کی تقویت‘ تندرستی اور صحت موجود ہے اور مرد کے پوشیدہ اعضاء کی تقویت‘ تندرستی اور صحت بہت زیادہ ہے۔ پودینہ آپ کی موجودہ کھاد‘ زہریلے پانی اور آلودگی سے پلی غذاؤں پھلوں اور سبزیوں کا ایک بہترین اینٹی بائیوٹک اور اینٹی سپٹک یعنی تریاق ہے جس معدہ میں پودینہ یا پودینے کا عرق ہوگا (یعنی قہوہ) وہ معدہ بیماریاں پیدا نہیں کرے گا وہ معدہ روگ نہیں بنائے گا اور وہ معدہ بڑھے گا نہیں یعنی پیٹ کا بڑھنا موٹاپے کا ہونا‘ چربی کا بڑھنا‘ کولیسٹرول یوریا، یورک ایسڈ، وغیرہ اس جسم میں پیدا نہیں ہوں گے۔ سونف کے ’س‘ سے سدا بہار‘ صحت تندرستی ’و‘ سے والہانہ فٹنس اور تندرستی کا راز، ’ن‘ سے ہربیماری کی نفی اور’ ف‘ سے بڑے بڑے سائنسدانوں کا فلسفہ کہ انہوں نے اس دوائی سے کیا پایا۔ آئیے! اس قہوہ کو اپنے لیے‘ بچوں اور نسلوں کیلئے اور آنے والے مہمانوں کی تواضع کیلئے زندگی کا ساتھی بنائیں نسل درنسل اس کو چلائیں اس ملک کو صحت مند اور تندرست بنانے میں ہم اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں